Get Mystery Box with random crypto!

رضا طلبی میں جانِ عزیز تک قربان کر دی، حق تعالیٰ فرمائے گا تو | ๛⊶⃟ ⃟ ⃟ ✤🇮🇳 AYUBI India 🇮🇳✤ ⃟ ⃟ ⃟⊷๛

رضا طلبی میں جانِ عزیز تک قربان کر دی، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے تو صرف اس لیے جہاد کیا تھا کہ تو بہادر مشہور ہو، تو دنیا میں تیری بہادری کا چرچا ہو چکا، پھر اللہ کے حکم سے اس کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اسی طرح ایک "عالم دین" اور "عالمِ قرآن" حاضرِ عدالت کیا جائے گا اور اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے کیا اعمال کئے؟ وہ کہے گا میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کے علم کو پڑھایا، اور یہ سب تیری رضا کے لیے کیا، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے، تو نے تو عالم، قاری، اور مولانا کہلانے کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا پھر بحکمِ خداوندی اس کو بھی دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
پھر اس کے بعد ایک شخص پیش ہو گا جس کو اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دیا ہو گا، اس سے بھی سوال کیا جائے گا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ عرض کرے گا کہ خدا وندا میں نے خیر کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تیری رضا جوئی کے لیے اپنا مال نہ خرچ کیا ہو، حق تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے تو صرف اس لیے مال خرچ کیا تھا کہ دُنیا تجھ کو سخی کہے تو دنیا میں تیری سخاوت کا خوب چرچا ہو لیا، پھر اس کو بھی اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مسلم)
(اللہ پناہ میں رکھے نیتوں کے فساد بالخصوص ریا و نفاق سے۔ آمین)
الغرض اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی عمل کام آئے گا جو صالح نیت سے یعنی محض رضائے الہی کے لیے کیا گیا ہو، دین کی خاص اصطلاح میں اسی کا نام اخلاص ہے۔
قرآن مجید میں مخلصوں اور غیر مخلصوں کی ایک مثال
قرآن پاک کی ذیل کی دو آیتوں میں صدقات و خیرات کرنے والے دو قسم کے آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ لوگ جو مثلاً دنیا کے دکھاوے کے لیے اپنا مال مصارفِ خیر میں صرف کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو محض اللہ کی رضا جوئی کی نیت سے غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کرتے ہیں، ان دونوں گروہوں کے ظاہری عمل میں قطعی یک رنگی ہے اور ظاہر ہے کہ آنکھ ان کے درمیان کسی فرق کا حکم نہیں کر سکتی لیکن قرآن پاک بتلاتا ہے کہ چونکہ ان کی نیتیں مختلف ہیں اس لیے ان دونوں کے عمل کے نتیجے بھی مختلف ہیں، ایک کا عمل سراسر برکت ہے اور دوسرے کا بالکل اکارت:
كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا ۗوَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
اُس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، اور اللہ اور یومِ آخر پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے پتھر کی ایک چٹان ہو جس پر کچھ مٹی آ گئی ہو، (اور اس پر کچھ سبزہ جم آئے) پھر اس پر زوروں کی بارش گرے جو اس کو بالکل صاف کر دے، تو ایسے ریا کار لوگ اپنی کمائی کا کچھ بھی پھل نہ لے سکیں گے اور ان منکر لوگوں کو اللہ اپنی ہدایت اور اسکے میٹھے پھل سے محروم ہی رکھے گا۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ وَتَثْبِيتًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ
اور اُن لوگوں کی مثال جو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے اور اپنے نفسوں کو ایثار و انفاق اور راہِ خدا میں قربانی کا خوگر بنانے کے لیے اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس پھولنے پھلنے والے باغ کی سی ہے جو ٹیکری پر واقع ہو اُس پر جب زوروں کی بارش ہو تو دو گنا چوگنا پھل لائے۔
تو اگرچہ ان دونوں نے بظاہر یکساں طور پر اپنا مال غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں پر خرچ کیا، مگر چونکہ ایک کی نیت محض دکھاوے کی تھی اس لیے لوگوں کے دیکھ لینے یا زیادہ سے زیادہ اُن کی وقتی داد و تحسین کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہوا، کیوں کہ اس کی غرض اس انفاق سے اس کے سوا کچھ اور تھی ہی نہیں۔۔۔ لیکن دوسرے نے چونکہ اس ایثار و انفاق سے صرف اللہ کی رضا مندی اور اس کا فضل و کرم چاہا تھا اس لیے اللہ نے اس کو اس کی نیت کے مطابق پھل دیا۔
بس یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے۔
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے۔
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے "عالمِ ظاہر" اور "عالم، شہادت" ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا